تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا : واصف علی واصف

تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا
مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا

طرفہ عذاب لائے گی اب اس کی بددعا
دروازہ جس پہ شہر کا کوئی کھلا نہ تھا

شامل تو ہوگئے تھے سبھی اک جلوس میں
لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا

آگاہ تھا میں یوں تو Ø*قیقت Ú©Û’ راز سے
اظہار Ø*Ù‚ کا دل Ú©Ùˆ مگر Ø*وصلہ نہ تھا

جو آشنا تھا مجھ سے بہت دور رہ گیا
جو ساتھ چل رہا تھا مرا آشنا نہ تھا

سب چل رہے تھے یوں تو بڑے اعتماد سے
لیکن کسی سے پاؤں تلے راستہ نہ تھا

ذروں میں آفتاب نمایا تھے جن دنوں
واصفؔ وہ کیسا دور تھا وہ کیا زمانہ تھا